غزل ” اداس لہجہ میں پہچان مری زبان کا ہے“

اداس لہجہ میں پہچان مری زبان کا ہے
تمام  شہر  میں  چرچا  مرے  بیان کا ہے

مجھے بھروسہ ہے اپنے پروں کی طاقت پر
میرا  ارادہ   تو  اونچی  کس  اڑان  کا   ہے

جو میری سوچ کے رستے کو روک دے اکثر
مجھے  ہے  فکر  تو بس اک ایسی چٹان کا ہے

میں زندگی کے لیے جنگ لڑ رہی ہوں، ابھی
کسے  خیال  یہاں  پر  میری  تکھان  کا  ہے

نہ جانے  کیسے  وہ  اب  تک  ہے  بے  خبر  اتنا
مکین برسوں  سے جو دل کے اس مکان کا ہے

تری گلی سے وہ  گزرے  گا آج پھر لیلیٰ
یقین کر کہ یہ دھوکہ تیرے گمان کا ہے

شاعرہ :لیلیٰ خٹک ایڈووکيٹ ہاٸیکورٹ
کمپوزڈ باۓ ”مسٹر اے بی“

Comments